بچوں کی پرورش کیسے کی جائے اسے تو بالتفصیل تربیت اولاد کے موضوعات میں بیان کیا جائے گا یہاں اس بات کو اچھی طرح اجاگر کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ صالح عورت کی پہچان کیا ہے اور فرمان خدا اور رسول میں اس کی فضیلت اور مقام مرتبہ کیا ہے،اس سے دو فائدے حاصل ہونگے ایک تو یہ کہ نیک عورت کی پہچان آسان ہو جائے اور دوسرا یہ کے نیک بننے کی خواہشمند عورتوں کی رہنمائی کی جا سکے
نیک عورت کی پہچان اللہ تعالیٰ کے کلام پاک میں یہ بیان فرمائی گئی فاا لصالحات قانتات حافظات للغیب بما حفظ اللہ تو نیک ادب والیاں اللہ کی حفاظت کے سبب [شوہر کی ]عدم موجودگی میں حفاظت کرنے والیاں
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نیک عورتوں کے اوصاف گنائے تو پہلا وصف یہ بیان فرمایا الصالحات،یعنی اے عورتو ! تم نیک ہو تو اللہ کے اس فرمان میں داخل ہو ،اور نہیں ہو تو جلدی سے اصلاح احوال کرلو تاکہ تمہارا شمار بھی اس میں ہو جائے اور رب کے فرمان کی مصداق تم بھی ہو جاؤ،دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لو اے عورتو ! تم نیک ہو تو تمہیں مبارک باد ہم تمہارا ہی تذکرہ کرنے جارہے ہیں اورتمہارے پاس یہ وصف نہیں ہے توتمہیں یہ موقع دیا جارہا ہے کہ تم اس طرح کی بن جاؤ تاکہ ہمارے فرمان سے تم خارج نہ ہو سکو،نیک ہو تو تمہیں مطلوب ہو اور نیک نہیں ہو تو تمہاری نیکی مطلوب ہے،کون بندہ ہوگا جو رب کی تعریف والے کلمات میں خود کو شامل کرنا نہ چاہے؟اور اسے یہ تڑپ پیدا نہ ہو کہ میں اپنے رب کی رضا میں اپنا نام درج کرالوں؟تو پھر دیر کس بات کی؟ہم اپنے بدن کو دیکھنے اور سنوارنے میں آئینہ کا سہارا لیتے ہیں تو اپنے وجود کو مقصد کے قابل بنانے کے لئے بھی ہمارے پاس میں آئینہ ہے اور وہ آئینۂ علم نبی ہے اسے سامنے رکھو اور اپنے آپ کو قابل بناتے چلے جاؤ
حسن اخلاق کی جامع صفت
اسلام میں صالح ہونا ایسی جامع صفت ہے کہ تمامی اچھائیاں اس میں مضمرہیں،اور گناہوں سے بچے ہونے کی اس میں گارنٹی ہے، جو صالح ہوگا حسن اخلاق کا پیکر ہوگا،جو صالح ہوگا صوم صلوٰۃ کا پابند ہوگا،جو صالح ہوگا رب کے فرمان پر عامل ہوگا،جو صالح ہوگا نبی کی سنتوں کا پابند ہوگا،جو صالح ہوگا رب کے حقوق کی بجا آوری کے ساتھ بندوں کے حقوق کو بھی کامل طور سے نبھانے والا ہوگا،جو صالح ہوگا گناہوں سے بچنے والا بھی ہوگا،غرضیکہ جس پہلو سے دیکھا جائے اس میں اچھائی دکھائی دے،برائی کا پہلو معلوم نہ ہو سکے تو وہ صالح ہوتا ہے
آیت کے فوائد
جب صالح کا لفظ اتنا جامع ہے تو اس کی تشریح میں بعض اوصاف کا ہی ذکر کیوں ہوا ؟ اور انہیں بعض کا ذکر کیوں ہوا؟ انکی وجہ تخصیص کیا ہے؟ان ساری حکمتوں پر غور کرنے سے اور بھی بہت ساری کام کی باتوں کا علم ہوتا ہے،اور ان اوصاف کے حامل ہونے کا جذبہ دو بالا ہو جتا ہے
قانتات کی تفسیر میں تفسیر کبیر میں ہے مطیعات للہ ا للہ تعالیٰ کی اطاعت گزار،حافظات للغیب کی تفسیر میں ہے قائمات بحقوق الزوج شوہر کے حقوق کی ادا کرنے والیاں،امام رازی فرماتے ہیں اللہ کے حقوق کی ادائیگی پہلے ہے اور شوہر کے حقوق کی ادائیگی کو اس کے تابع کیا گیا ہے،دوسری تفسیر یہ ہے کہ شوہر کی موجودگی میں حقوق کی ادائیگی اور شوہر کی عدم موجودگی میں حقوق کی ادائیگی،موجودگی کے بارے میں فرمایا قانتات اور قنوت کی اصل ہے طاعت پر دوام،یعنی نیک عورتیں وہ ہیں جو شوہرکی موجودگی اور عدم موجودگی میں انکا خیال رکھتی ہیں،آگے فرماتے ہیں
ان المراٗۃ لاتکون صالحۃ الا اذا کانت مطیعۃ لزوجھا لان اللہ تعالیٰ قال فالصالحات قنتات و الالف و اللام فی الجمع یفید الاستغراق فھٰذا یقتضی ان کل مراٗۃ تکون صالحۃ فھی لابد ان تکون قانتۃ مطیعۃ
امام رازی فرماتے ہیں کہ عورت نیک نہیں ہوسکتی مگر جبکہ وہ اپنے شوہر کی فرمانبردار ہو اس لئے کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے فرمایا فالصالحات قانتات میں الصالحات جمع ہے اور ال جمع میں استغراق کا فائدہ دیتا ہے تو اسکا اقتضاء یہ ہے کہ ہر عورت جو نیک ہوگی وہ اطاعت گزار بھی ہوگی
امام واحدی فرماتے ہیں کہ لفظ قنوت طاعت کا فائدہ دیتا ہے اور یہ عام ہے اللہ کی طاعت اور شوہر کی طاعت میں،رہ گئی عورت کی حالت شوہرکی عدم موجودگی میں تو اللہ تعالیٰ نے ان کی وہ حالت اپنے اس فرمان سے بیان فرمائی حافظات للغیب،غیب شھادت کا عکس ہے مطلب یہ ہے کہ وہ عدم موجودگی کہ واجبات کی بھی محافظ ہیں ایک تو یہ کہ وہ اپنے آپ کو زنا سے بچاتی ہیں تاکہ زنا کی وجہ سے شوہر کو شرمندگی کا سامنہ نہ کرنا پڑے اور اولاد غیر کے نطفہ کی طرف منسوب نہ ہوں،دوسرا یہ کہ مال کو ضائع ہونے سے بچائیں،اور تیسرا یہ کہ ناپسند چیزوں سے غیر کی حفاظت کریں [تفسیر کبیر ج ۴] بما حفظ اللہ کی تفسیر میں فرمایا ان علیھن ان یحفظن حقوق الزوج فی مقابلۃ ما حفظ اللہ حقوقھن علیٰ ازواجھن ان پر ضروری ہے کہ شوہروں کے حقوق کی پاسداری کریں اسکے مقابلہ میں کہ ان کے حقوق کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے انکے شوہروں پر ڈال دیا ،الغرض عورتوں کے حقوق شوہروں پر پہلے ہی مقرر کئے جا چکے ہیں اب عورتوں سے تلقین کی جارہی ہے کہ تم یہ چاہتی ہو کہ تمہارے حقوق شوہر اچھی طرح نبھائیںتو تمہیں انکے حقوق کو اچھی طرح ادا کرنا چاھئیے
انسان کا پہلا رشتہ زوجین
ہر مرد کسی عورت سے نکاحا متعلق ہوتا ہے اور ہر عورت کسی مرد سے نکاحا متعلق ہوتی ہے،ہر ماں باپ بننے والے پہلے زوج و زوجہ ہیں بلکہ پہلے مرد و عورت کی تخلیق ہوئی تو وہاں بھی پہلا رشتہ زوج و زوجہ کا ہے اور اسی رشتہ سے تمامی رشتے وجود میں آئے ہیں اس لئے اللہ نے نیک اور صالح عورت کے پہچان یہ قرار دی کہ وہ اپنے شوہر کے حقوق ادا کرنے والی ہوتی ہے،اگر وہ ایسا نہ کرے گی تو صالح ہی شمار نہ ہوگی،جب ہر گھرکا تعلق اس رشتہ سے ہے،یا ہونے والا ہے،ہر فرد اس سے متعلق ہے یا ہونے والا ہے تو اسکا بننا ہر گھر کا سنورنا ہے،گویا چند الفاظ میں تمامی رشتوں کے بنانے کی تعلیم پہنچا دی گئی
حاکم کو اپنا کیسے بنائیں
مردوں کو اللہ تعالیٰ نے فطرۃ طاقت اور قوت زیادہ عطا فرمائی ہے اور نکاح میں عورت کو مرد کے تابع کیا جاتا ہے مہر اور نان و نفقہ کا شرعی ذمہ دار بھی وہ ہوتا ہے،وہ کماکے لاتا ہے اور عورت کو دیتا ہے،خود زحمتیں برداشت کرتا ہے اور بیوی کو آرام سے رکھتا ہے،اس لئے اسلام نے مردوں کو عورتوں کا حاکم قرار دیا اور انکے ماتحت رہنے والی عورتوں کو اپنے حاکموں کے ساتھ باادب رہنے کی تعلیم عطا فرمائی کہ حاکم ان پر ظلم نہ کرے اور اپنے حسن اخلاق سے انکے دلوں میں اپنے لئے جگہ بنا لیں ،کمزور طاقتور کو اپنے اخلاق کریمانہ ہی سے فرمانبردار بنا سکتا ہے،عورت اپنے شوہر کے لئے جتنی اچھی بن کے رہے گی شوہر بھی اس کے لئے اتنا ہی اچھا بنکے رہے گا،انسان احسان سے درندوں کو تابع کرتا ہے تو ذی عقل تابع کیوں نہ ہوگا؟اس لئے شوہر کی حاکمیت کے ذکر کے فورا بعد نیک عورت کی پہچان بتائی گئی،حقیقت میں ذی قوت کو تابع فرماں بنانے کا طریقہ سیکھایا گیا
حدیث شریف
تفسیر ابن کثیر میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے اللہ کے پیارے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا خیر النسآء امراٗۃ اذا نظرتھا سرتک واذا امرتھا اطاعتک واذا غبت عنھا حفظتک فی نفسھا و مالک بہترین عورت وہ ہے کہ جب تو اسے دیکھے خوش کردے،جب تو اسے حکم دے اطاعت کرے اور جب تو اس سے غائب ہو اپنی ذات اور تیرے مال کی حفاظت کرے پھر آپنے یہ آیت تلاوت فرمائی فالصالحات قانتات حافظات للغیب بما حفظ اللہ [ابن کثیر ج ۱ ص۶۵۴]
لباس کا کام
شوہر کو گناہ سے بچانے والی اسکی بیوی ہے اور بیوی کو گناہ سے بچانے والا اسکا شوہر ہے،اس بات کو سیکھانے کے لئے قرآن مجید میں فرمایا گیا ھن لباس لکم و انتم لباس لھن عورتیں تمہارا لباس اور تم عورتوں کے لباس،لباس کا کام بدن کی حاظت ہے،ستر کی حفاظت ہے،اور عزت کی بھی حفاظت ہے،جب ایک عورت کو مرد کا لباس اور مرد کو عورت کا لباس فرمایا گیا تو دونوں ایک دوسرے کے محافظ ہوئے،اور حفاظت یونہی نہیں ہوتی اس کے لئے دونوں کو باہم ایسا بننا پڑتا ہے،شوہر بیوی کا وفادار بن جائے اور بیوی اپنے شوہر کی حفاظت میں ایسی بن جائے جس کی مذکورہ بالا حدیث میں تلقین فرمائے گئی،تو عورت کا مقصد حاصل ہو جائے گا،اور ازدواجی زندگی میں کامیابی اسکا قدم چومے گی
پہلی نشانی کا فائدہ
حدیث میں اچھی عورت کی پہلی نشانی بتائی گئی کہ جب شوہر دیکھے خوش کردے اس سے ظاھری سکون کی طرف اشارہ ہے جسکا تعلق آنکھوں سے ہے کہ عورت صفائی سے رہے،سنور کر رہے،وہ گھر میں آئے سب کام چھوڑ کر مسکراتے ہوئے اسکا استقبال کرے،اس کی عادتوں کو جان کر اس کا ہر کام اسکے حکم سے پہلے کردے،کھانے پینے اور رہائش میں اسکی چاہتوں کا خیال رکھے،رنجیدہ اور غمگین خبر گھر میں آتے ہی نہ سنادے، باہر تھک کر آنے والا اپنے گھر بڑے سکون کی امید لیکر آتا ہے،وہ جانتا ہے گھر کے علاوہ سکون کہیں نہیں ملے گا،اگر اس کی امید وں پر پانی پھر جائے اور گھر کے سکون کا دروازہ بھی اس پر بند ہو جائے تو آخر وہ کہاں جائے گا ؟ گھر کے سکون سے ناامید ہونے والا ناجائز طور بازاری سکون کا عارضی دروازہ کھولنا چاہتا ہے اور اس طرح وہ گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے،جس عظیم گناہ سے بچنے کے نام سے نکاح کا دروازہ کھولا گیا تھوڑی سی خطا سے وہ بے مقصد ہو جاتا ہے اس لئے ہمارے آقا ﷺ نے فرمایا نیک عورت کی پہلی پہچان یہ ہے کہ شوہر اسے دیکھکر خوش ہو جائے
شادی کے بعد کی آوارگی کیسے
شادی شدہ ہونے کے بعد کوئی مرد آوارہ نہیں ہوتا،بلکہ آوارہ کو آوارگی سے روکنے کے لئے شادی کروا دیجاتی ہے،مگر شادی شادہ ہونے کے بعد کوئی آوارہ ہو تو اس کی داستان معلوم کرنے سے یہی پتہ چلتا ہے کہ اس کی بیوی کی کوتاہیوں کا یہ نتیجہ ہے،عورت نے اپنے شوہر کے دل میں گھر کر لینے کی کوشش نہیں کی ہے اس لئے غیر کی محبت اس میں آنے کی گنجائش رہی ہے،دل کے گھر کا دروازہ بند کرنے کا بہترین علاج جائز منکوحہ کا حسن اخلاق سے اسکے دل میں جا بیٹھنا ہے اور اپنی طرف سے کسی بھی طرح کی کوئی کوتاہی نہیں کرنا ہے،گھر کو جنت کا باغ بنائے رکھنے کے لئے ہمارے آقا نے قراٰن کی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے نیک اور صالح عورت کی عادتیں اور خصلتیں بیان فرمائیں کہ فرمان نبی پر عمل سے گھر مثالی جنت بن جائے
فرمانبردار کیا کرے
آپنے دوسری پہچان یہ بیان فرمائی کہ بیوی اپنے شوہر کی فرمانبردار ہوگی،یعنی اسلامی ناجائز کو چھوڑ کر ہر جائز اور مباح میں اس کی اطاعت کریگی،اپنی طرف سے منع نہ کرے گی،بلا وجہ عذر نہ کرے گی،غلط بہانہ نہ بنائے گی،حسن اخلاق کی پیکر ہوگی اپنی طرف سے کوئی کمی نہ آنے دے گی،وہ اس کے لائق بنے گی بھی اور اسکے لائق کرے گی بھی
عورت ضد چھوڑ دے
گھر میں میاں بیوی کے درمیان جھگڑا عام طور پر حکم عدولی اور ضد پر ہوتا ہے،لڑائی کا میدان خلاف ورزی ہی سے گرم ہوتا ہے،دو کی لڑائی کتنوں کے دل ٹوٹنے باعث بنتی ہے،معمولی سی باتیں خاندانوں کی تباھی کا سبب بن جاتی ہیں،جھگڑوں سے بچنے کی آسان ترکیب یہ ہے کہ عورت ضد نہ کرے اس کی بات مان لے اور اس کے کہنے پر عمل کر لے ،ہر ایک دوسرے سے خوش رہے گا اور کسی کو کسی سے شکایت نہ رہی گی،اس لئے ہمارے آقا ﷺ نے فرمایا صالح عورت کی دوسری پہچان یہ ہے کہ وہ اطاعت گزار ہوگی،ضدی اور نافرمان نہ ہوگی
بیوی شوہر کی امانت
ہمارے پیارے آقا ﷺ نے تیسری پہچان یہ بتائی کہ وہ عورت اتنی وفا شعار ہوتی ہے کہ شوہر کی موجودگی میں تو وہ اس کی ہر چاہت کو پورا کرتی ہی ہے مگر وہ ایسا خوف خداوالی ہے کہ شوہر موجود نہ ہوپھر بھی وہ اپنے آپ کو اپنے شوہر کی امانت سمجھتی ہے اور اس میں کوئی خیانت نہیں ہونے دیتی،اور حقیقت بھی یہی ہیکہ عورت ایک شخص کے نکاح میں آجانے کے بعد جب تک اسکے نکاح میں ہے اسی کی امانت ہے،اس امانت میں خیانت تو نہیں ہونی چاہیئے بلکہ خیانت کا شبہ بھی نہیں آنا چاہیئے،خیانت سے تو بالیقین بچانا چاہیئے مگر اپنے آپکو موضع تہمت سے بھی بچانا چاہیئے اور اس کے لئے غیر محرم سے حجاب میں رہنا چاہیئے،اسلام میں عورتوں پر حجاب فرض کیا گیا اسکا مقصد یہی ہے کہ کوئی شبہ عائد نہ ہو سکے،بلکہ کس غیر محرم سے بات کی جائے تو اس میں انداز کیسا ہونا چاہئے اسکا بھی طریقہ ہمارے قراٰن نے ہمیں عطا فرمایا،اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض بات میں لچک نہ لائے کہ جسکے دل میں بیماری ہے ارادۂ بد نہ کرے،یعنی بات اس انداز میں ہونی چاہیئے کہ مخاطب کو لگے یہ عورت بڑی سخت معلوم ہوتی ہے،اللہ فرماتا ہے قل للموٗمنات یغضضن من ابصارھن و یحفظن فروجھن ولا یبدین زینتھن اے نبی آپ فرما دیجئے ایمان والی عورتوں سے کہ وہ اپنی نگاہیں جھکی رکھیں،اپنی شرم کی جگہوں کو محفوظ رکھیں،اور اپنی زینت کو ظاہر نہ ہونے دیں،یہ تعلیم اسی لئے ہے کہ ہماری عزت محفوظ رہے اور ہماری عزت پر کیچڑ اچھالنے کا کسی کو موقع نہ مل سکے،انہیں باتوں کی تفسیر ہمارے آقا ﷺ نے یہ فرمائی کہ وہ عورت اتنی پارسا ہے کہ وہ اپنے شوہر کی عدم موجودگی میں بھی اپنی ذات کو بچا کے رکھتی ہے،حقیقت میں اس کے پاس خوف خدا ہے اس لئے کسی کا پاس ہونا نہ ہونا اس کے کردار میں فرق نہیں لاتا،اسے یقین ہے کہ وہ خدا سے کبھی چھپ نہیں سکتی ،اس لئے اس کے کردار میں فرق نہیں آتا
بیوی گھر کی محافظ
اور چوتھی علامت آپنے یہ بیان فرمائی کہ وہ اس کے مال کی بھی حفاظت کرتی ہے،نہ فضول خرچی کرتی ہے،نہ اس کی اجازت کے بغیر اس میں تصرف کرتی ہے،نہ بے اجازت خود لیتی ہے نہ کسی اور کو دیتی ہے،صدقہ وخیرات کرنا ہو تو اس میں بھی شوہر کی رضا کا خیال رکھتی ہے،اور مال زوج میں اس کی یہ احتیاط اسی لئے ہے کہ وہ جانتی ہے کہ میرے شوہر نے مال مجھے رکھنے کو دیا تو شرعی مالک تو وہی ہے میں تو اس کی امیں ہوں،امانت میں خیانت بہت بڑا گناہ ہے ہمارے آقا ﷺ نے فرمایا کہ الا لا ایمان لمن لا امانۃ لہ جس کے پاس امانت نہیں اس کے پاس ایمان کا کمال نہیں
اپنی رائے کا اظہار کریں